بچہ معصوم نہیں || The child is not innocent

GR SONS


بچہ معصوم نہیں





ایک قریبی عزیز کے گھر سے زیور چوری ہو گیا۔ انہوں نے ایک "پیر صاحب" کو حساب کتاب کے لئے گھر بلایا۔ میں گیارہ/بارہ برس کا تھا۔ پیر صاحب نے کہا، کوئی معصوم بچہ جو اڑوس پڑوس اور خاندان کے بندوں کی پہچان بھی رکھتا ہو، اس کو بلا لیں۔

قرعہ میرے نام نکلا۔ میں پیر صاحب کے سامنے حاضر، دوزانو ہو کہ بیٹھ گیا۔ پیر صاحب نے اپنے سامنے رکھے ایک طشت، جس میں ایک سٹیل کا گلاس، ایک پلیٹ میں کچھ گھی، کچھ کاغذ کے ٹکڑے، تعویز وغیرہ رکھے تھے،

ان پہ کچھ لمبا چوڑا عمل اور پڑھائی شروع کر دی۔ کمرے میں ہم دو ہی فرد تھے۔

لائیٹ بند تھی، صرف کھڑکی سے روشنی آ رہی تھی۔ میں کچھ کچھ ڈرا ہوا بھی تھا۔ گمان تھا شاید کوئی روح حاضر ہو گی اور ہمیں چور کے بارے میں بتائے گی۔

قریب بیس منٹ بڑبڑاہٹ کے انداز میں پڑھائی کے بعد پیر صاحب بآواز بلند کچھ پڑھنا شروع ہوگئے۔ میں ذہنی طور پہ آمادہ کہ بس اب کوئی روح قریب پہنچ چکی ہے۔

پیر صاحب نے پڑھائی روک کے سٹیل کے گلاس میں قریباً ایک گھونٹ پانی ڈالا اور مجھے حکم دیا کہ اپنی نظر گلاس کے پانی پہ رکھنی ہے۔

اس میں کوئی مرد یا عورت (چور) نظر آئے گا۔ اس کو پہچان لینا۔ میں چوکس ہو گیا کہ چلو کوئی روح نہیں آنے والی، بس چور کا عکس ہی نظر آئے گا پانی میں۔ پیر صاحب نے پھر سے پڑھنا شروع کیا۔

میں اپنی نظر پانی گاڑھے بیٹھا رہا۔ پیر صاحب بولے، کوئی بندہ نظر آیا؟ مجھے تو کچھ نظر نہ آیا تھا۔ میں نے کہا "نہیں"۔


یہ بھی پڑھیں
پیر صاحب نے پھر سے بغور نظر جمانے کا حکم دے کر کچھ پڑھا اور پوچھا اب کون نظر آ رہا ہے پانی میں؟
میں نے کہا کوئی نہیں۔ پیر صاحب تھوڑے جھنجلائے اور پھر سے عمل شروع کیا۔ پھر پوچھا، بیٹا دیکھو، کوئی مرد ہے یا عورت؟

مجھے تو پانی میں سٹیل گلاس کا پیندا ہی نظر آ رہا تھا۔ میں نے کہا کوئی نہیں ہے۔

پیر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کے عمل روک دیا اور متاثرہ گھر والوں کو اندر بلایا جو بیچارے بڑی بے چینی سے چور کی شناخت ظاہر ہونے کے منتظر تھے۔

ان کو اندر بلا کے پیر صاحب نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔ "

اے بچہ معصوم نہیں ہے