دولت کا غرور || Pride of wealth

GR SONS

 

دولت کا غرور






چند ماہ قبل میں ایک شادی کی تقریب میں شامل تھا۔ ولیمہ کے وقت میں شادی ہال میں بیٹھا ہوا تھا میں نے ایک نوجوان کو دیکھا۔ بہت اچھی ڈریسنگ، بڑی مہنگی اور منفرد ویسٹ کوٹ، زبردست قسم کے جوتے پہنے ہوۓتھا۔

کسی زمانہ وہ میرا بہت قریبی تھا۔ بہت اچھا وقت اسکے ساتھ گزرا تھا،ایک وقت تھا جب وہ مجھے انکل جی انکل کہتے نہیں تھکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں


لیکن اس شخص نے مجھے دیکھ کر بالکل ”اگنور“ کردیا۔ میں نے مروتاً آگے بڑھ کر اسے سلام کیا۔سلام کرتے ہوۓ میں نے بانہیں پھیلاٸیں تاکہ گلے مل سکیں لیکن اس نے قدرے پیچھے ہٹ کر ایک ہاتھ سلام کیلیے آگے بڑھا دیا۔

مجھے بہت سبکی محسوس ہوٸی۔ بہت سے لوگ جو مجھے جانتے تھے وہ سب یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

اب دو صورتیں تھیں یا میں اس بات کو ”پی“ جاتا یا احتجاج ریکارڈ کرواتا۔
”پی“ جانا میرے مزاج کے خلاف تھا، مناسب وقت کے انتظار میں خاموش ہوگیا۔

میرے ایک بزرگ دوست نے مجھے اشارہ کیا جو خصوصی مہمانوں کی قطار میں بیٹھے ہوۓ تھے، میں وہاں گیا تو انہوں نے مجھے ساتھ بٹھالیا۔ اور اس واقعہ بارے پوچھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں وہ شخص بھی اسی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔

میں نے ان بزرگ دوست کو کہا کہ بہت عرصہ پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک شخص کا بہت قیمتی ہیرا چوہے نے نگل لیا۔ وہ بہت پریشان ہوا کہ کیا کرے۔ اسکے دوست نے مشورہ دیا کہ چوہے پکڑنے والے ماہر کو بلاۓ۔

اس نے ماہر کو بلایا جس نے کچھ کیمیکل روٹی کے ٹکڑے پرلگا کر رکھا تو گھر کےسارے چوہے اس جگہ اکھٹے ہوگئے۔

لیکن ایک چوہا دور بیٹھا رہاوہ روٹی کھانے نہیں آیا۔ اس ماہر نے فوراً اس چوہے کو پکڑ کر پیٹ چاک کیا تو اسمیں سے ہیرا نکل آیا۔

ہیرے والا بڑا حیران ہوا اس نے ماہر سے پوچھا کہ آخر تمہیں اس چوہے کی پہچان کیسےہوئی۔

اس ماہر نے کہا جب کسی بیوقوف کو نٸی نٸی دولت ملتی ہے تو خود دوسروں الگ سمجھنے لگتاہے،اس لیے میں نے اسے الگ بیٹھے دیکھ کر پہچان لیا“

میں بات کو روکا پانی گلاس میں ڈالا اور ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ بات شروع کی۔میرے دوست بڑی توجہ سے بات سن رہے تھے۔

میں نےکہا”جیسے ایک چوہا اچانک ہیرا ملنے پر الگ ہوکر بیٹھ گیا ایسے ہی اچانک دولت ملنے والا شخص کا رویہ ہوتاہے۔

وہ دوسروں کو اپنے قابل نہیں سمجھتا، اچانک ملی دولت اور اقتدار کو برداشت نہیں کرپاتا اور خود کو اعلیٰ اور دوسرے کو حقیر سمجھنے لگ جاتاہے، حتیٰ کہ اپنی نسل، خون، رشتہ تعلقداری کو بھی پس پشت ڈال دیتاہے۔

وہ سب کو اپنی زات سے کمتر سمجھنے لگتاہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جسے میں حقیر سمجھ رہاہوں انکے مجھ پر کتنے احسانات ہیں، کیا میرا ان سے رشتہ تعلق ہے“

میں نے بات روک کر پانی کا گھونٹ پیا۔ وہ شخص سرجھکاۓ بات سن رہاتھا۔
تھوڑی دیر بعداٹھا گھوم کر میری طرف آیا اور مجھے سے بغلگیر ہوگیا اور کہنے لگا”انکل جی مجھ سے غلطی ہوگئی، واقعی مجھ میں یہ ”فالٹ“ تھا“
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا خوب اسکی پیٹھ تھپتھپائی۔

احباب گرامی!
آپ جس بھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ جائیں، مال ودولت عزت و شہرت حاصل کرلیں کبھی بھی کسی کو حقیر و کمتر نہیں سمجھنا چاہیے بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے آپکی کسمپرسی میں اعانت کی ہو آپ کی تربیت و پرورش کی ہو ایسے لوگوں کو تو ہرگز ”اگنور“ نہیں کرنا چاہیے۔