The advice of the mobile inventor to the users is to take your eyes away sometimes

GR SONS

 

کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں، موبائل کے موجد کا صارفین کو مشورہ



   

50 سال قبل موبائل فون ایجاد کرنے والے سائنسدان مارٹن کوپر نے مشورہ دیا ہے کہ ’صارفین ہر وقت موبائل 

کی سکرین کو ہی دیکھتے رہتے ہیں، کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں۔‘


فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو میں 94 سالہ امریکی انجینیئر مارٹن کوپر جن کو ’بابائے 

موبائل فون‘ کہا جاتا ہے، نے بتایا کہ آج ہماری جیب میں جو صاف ستھرا آلہ موجود ہے یہ بہت صلاحیت کا حامل 

ہے اور ایک دن بیماری پر قابو پانے میں بھی مدد دے گا لیکن فی الحال اس نے ہم کو کسی حد تک ’جنونی‘ بنا رکھا 

ہے۔

 

مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جب کوئی راستے پر چلنے والا موبائل پر نظریں گاڑے چلا جا رہا ہے۔ وہ ذہنی طور پر 

کہیں اور ہوتے ہیں۔


 انہوں نے مذاقاً کہا ’لگتا ہے جب کچھ لوگ (اسی حالت میں) گاڑیوں کے نیچے آئیں گے تو انہیں احساس ہو گا۔‘


مارٹن کوپر خود بھی ایپل کی گھڑی پہنتے ہیں اور آئی فون کا استعمال کرتے ہیں۔


ان کا کہنا ہے ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ میں موبائل کو آج اس طرح سے استعمال نہیں کر سکتا جس طرح میرے 

نواسے اور پوتیاں پوتے کرتے ہیں۔‘


مارٹن  کوپر طویل محنت کے بعد تین اپریل 1973 کو ایسا موبائل فون بنانے اور اس پر کال کرنے میں کامیاب 

ہوئے تھے جو کہ بہت بڑا تھا اور اس میں بہت زیادہ تاریں اور سرکٹس تھے۔


اس وقت وہ موٹورولا کمپنی کے ساتھ کام کرتے تھے جو موبائل فون بنانے پر کام کر رہی تھی۔


کمپنی نے اس امید کے ساتھ منصوبے میں لاکھوں ڈالر لگائے کہ وہ بیل کمپنی سے پہلے یہ بنانے میں کامیاب ہو 

جائے گی جو 1877 سے کام کر رہی تھی۔


مارٹن کوپر کے مطابق پہلے موبائل فون کی قیمت 5000 ڈالر تھی۔

بیل کے انجینیئرز نے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد ہی موبائل فون کا آئیڈیا پیش کیا تھا اور 60 کی دہائی کے آخر 

تک کار کے اندر رکھنے والا فون بنانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ اس کی بیٹری بہت بڑی تھی اور چلتے پھرتے ہوئے 

استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔


تاہم مارٹن کوپر کے نزدیک یہ موبیلٹی کے اس تصور سے بہت دور تھا جس کا مطلب ہے کہ کہیں بھی فون کو 

آسانی کے ساتھ لے جایا جا سکے۔


1972 کے آخر میں انہوں نے ایسا ہی فون بنانے کا ارادہ کیا جس کو کوئی بھی کہیں بھی لے جا سکے گا۔


ان کو موٹورولا کمپنی کی جانب سے جتنے بھی وسائل دستیاب تھے وہ انہوں نے اپنی تحقیق میں لگا دیے اور تین ماہ 

بعد یعنی اگلے سال کے مارچ تک انہوں نے یہ کام کر دکھایا اور ڈائنا ٹیک فون بنانے میں کامیاب ہوئے۔


اس کے بارے میں کوپر نے بتایا کہ ’اس کا وزن ایک کلو سے زائد تھا اور اس کی بیٹری 25 منٹ تک ہی کام کرتی 

تھی۔‘

’اصل مسئلہ بیٹری ٹائمنگ کا نہیں تھا بلکہ وزنی ہونے کا تھا اور اس کو 25 منٹ تک مسلسل اٹھائے رکھنا مشکل تھا۔‘


موبائل فون کے ذریعے کئی بیماریوں پر بھی قابو پانے کا امکان ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مارٹن کوپر کہتے ہیں کہ ’اس موبائل سے میں نے بیل کمپنی کے انجینیئر ڈاکٹر جوئل اینگل کو کال کیا اور بتایا کہ میں 

مارٹن کوپر ہوں اور ایک ایسے موبائل فون سے بات کر رہا ہوں جس کو ایک ہاتھ سے اٹھایا ہوا ہے۔

ان کے مطابق ’دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال ہے کہ وہ دانت پیس رہا تھا۔

ابتدائی موبائل فونز کی قیمت 5000 ڈالر تک تھی۔


کوپر کا کہنا ہے کہ اس موبائل فون کو خریدنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اس کے لیے 

جائیدادیں بیچ ڈالی تھیں۔


’اگرچہ آج موبائل سب کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے تاہم اس کا فائدہ اٹھانے میں ہم ابھی بھی ابتدائی 

مراحل میں ہیں۔ مسقتبل میں اس کو اس تعلیم اور صحت کے میدانوں میں اتقلابی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا 

جا سکے گا۔‘


انہوں نے امید ظاہر کی کہ موبائل فون کے ذریعے کئی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے گا۔