مفلسی سے لافانی دولت تک || From poverty to immortal wealth

GR SONS

 


مفلسی سے لافانی دولت تک





مدینہ منورہ پہنچے دوسرا روز تھا۔

حرم مدنی میں ظہر کی نماز ادا کرکے روضہ پاک پر سلام کرنے قطار میں کھڑے ہو ئے جلد ہی باری آگئی.سلام سے فارغ ہوتے ہی ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔

شوگرلیول بری طرح گرنے لگا تھا۔ زبان لڑکھڑانے لگی تھی.میں نے بمشکل اپنے ساتھی کو اس کیفیت سے آگاہ کیا.

وہ مجھے سہارا دیتے باہر نکلااورسامنے بن داؤد مارکیٹ کی جانب بھاگنےلگا.میں بھاگنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں تھا.

عطااللہ نے کچھ کہا اور مجھے چھوڑ کر مارکیٹ میں گھس گیا.مجھے اتنی بات سمجھ آئی کہ وہ میرے لیے کچھ لانے گیا ہے.

میں قدم قدم چلتا صحن حرم میں نصب آب زم زم کے کولر تک پہنچ گیا کانپتے ہاتھوں یکے بعد دیگرے کئی گلاس پی ڈالے.بدن کچھ سکت محسوس ہوئی تو میں بن داؤد کے اس گیٹ کی طرف بڑھا جدھر عطا گیا تھا.

سامنے والی گلی انسانوں کے جم غفیر سے اٹی پڑی تھی.کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا.

میں پاؤں گھسیٹتا چل رہا تھا.اچانک میرا پاؤں کسی چیز سے الجھ کر رہ گیا.

اس ہجوم میں جھک کر دیکھنے کا مطلب یہی تھا کہ میں کچلا جاؤں.ساتھ چلتے ایک سوڈانی بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے اپنے پاؤں کی جانب متوجہ کیا۔

اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور میرے پاؤں میں الجھی چیز تیزی سے لپک کر کھینچی اور میرے ہاتھ پر رکھ کر یہ جا وہ جا---


یہ بھی پڑھیں



ایک چھوٹا سا تھیلا میرے ہاتھوں میں تھا.مجھے اس لمحے ایک ہی احساس کھا رہا تھا کہ مبادا شوگر لیول کم ہونے سے کہیں گر نہ جاؤں، گر گیا تو پھر اٹھنا ممکن نہیں ہوگا۔

میں نے تھیلا گلے میں ڈالا اور گیٹ کے ساتھ الکیٹرانکس کی ایک دکان کے باہر پڑی کرسی پر بیٹھ گیا.

اتنے میں عطا جوس کا گلاس لے کر پہنچ چکا تھا.جوس پی کرہوش بحال ہونے لگے.عطا کا ہاتھ پکڑ کر مارکیٹ کی دوسری منزل پر واقع ہوٹل (مطعم التبوک)کی طرف چل پڑے.

وہ تھیلا میرے گلے میں لٹک رہا تھا.اچانک عطا کی نطر پڑی تو اس نے سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا.میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا.

مطعم پہنچ کر عطا کھانا لینے قطار میں لگ گیا.میں نے تھیلا میز پر رکھا اور اس ٹٹولنے لگا.حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.

دوعدد ترک پاسپورٹوں کے علاوہ تیرہ ہزار امریکی ڈالرز,پچاس ہزار ترک لیرہ اور دس ہزار کے قریب سعودی ریال سونے کے چھ کڑے منہ چڑا رہے تھے.

یہ بات سمجھنا مشکل نہیں تھی کہ یہ ساری دولت کسی ترک جوڑے کی ہے جو ہجوم میں کھو بیٹھے تھے. عطا کھانا لے کر آیا تو میں تھیلا بند کر کے کھانا کھانے لگا لیکن میرے خیال کی پرواز کہیں اور تھی۔

واہ میرے اللہ اتنی دولت ایک ساتھ دے دی

میں نے سوچا معاشی تنگ دستی نے گزشتہ کئی برسوں سے گھیر رکھا تھا.کوئی سبب پیدا نہیں ہو رہا تھا۔

اللہ نے حجاز میں بلا کر "نواز" دیا.کیا کیا خیالات دل میں ابھرنے لگے تھے.کھانے کے ہر لقمے کے ساتھ توانائی اور بن محنت ہاتھ آئی دولت کی مسرت

اڈی اڈی جانواں ہوا دے سنگ

والی کیفیت طاری تھی.میرا ساتھی اس ساری کیفیت بے نیاز لقمے ٹھونس رہا تھا.

ابھی کل ہی تو ہم دونوں مالی تنگ دستی کی باتیں کر رہے تھے.دور دور تک کوئی سبب نظر نہیں آرہا تھا.عطا کا خیال تھا پاکستان سے نکلیں....

یورپ,امریکا.خلیجی ریاستوں میں کوئی کام مل سکتا ہے۔

میں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ پاکستان میری پہلی اور آخری محبت ہے.

اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔

یہ سوچتے ہی معاً میرے ذہن میں ایک شعلہ سا بھڑکا....مجھے اندر سے کسی نے جھنجھوڑا۔

تم پاکستانی ہو یہ دولت کا تھیلا تمہارا کیسے ہو سکتا ہے۔

یہ تو کسی ایسی ترک فیملی کا ہے جو نہ جانے اس وقت کس دکھ کی کیفیت میں ہوگی۔

میرے اندر سے سوالات کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔

ضمیر کچوکے لگانے لگا تھا.میں نے کھانے کے دوران ہی فیصلہ کر لیا۔

ہاتھ دھو کر میں نے تھیلا عطا کے سامنے رکھ دیا۔

وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا رقم دیکھ اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور پھر غائب ہو گئی,جیسے کہہ رہا ہو نہ بھائی یہ میری نہیں ,تمہیں ملی ہے تو تم رکھو۔

نہیں عطا یہ نہ میری ہے نہ تیری

اٹھو میرے ساتھ چلو ہم اس کے مالک تلاش کریں گے.

بن داؤد کی سیڑھیاں اترتے ہوئے شیطان پھر لوٹ آیا اور ذھن میں خیالات ابھرنے لگے.,رقم مل گئی ہے تو رکھ لو,یہ تمہاری دعا قبول ہوئی ہے,اس کا اصل وارث ملنے سے رہا..,وغیرہ وغیرہ


ادھر ہم مارکیٹ سے باہر نکلے گرم ہوا کے جھونکے چل رہے تھے سامنے گنبد خضری جگمگا رہا تھا میں نے ندامت سے سر جھکا لیا۔

اب ہم جنت بقیع کے ساتھ لقطہ( گمشدہ شدہ چیزوں کا مرکز) جارہے تھے.عطا مجھے با بار دیکھ رہا تھا جیسے کوئی ان ہونی ہونے جارہی ہو.میں نے تھیلا کوئنٹر پر کھڑے صاحب کے سامنے رکھا اور اسے اشاروں سے سمجھایا۔

یہ میرا نہیں مجھے گیٹ نمبر دو کے سامنے سے ملا ہے۔

اس نے تھیلاکھولا رقم گنی۔

باقی اشیا کی لسٹ بنائی.ساتھ کھڑے ایک پاکستانی مترجم کو کچھ کہااور تھیلا اٹھا کر اندر چلا گیا۔اب مترجم کی باری تھی۔

یہ نئی بات نہیں روز ایسے کیسز ہوتے ہیں۔

آپ یہ رسید لیں دستخط کریں,اپنا فون نمبر اور رہائش کا پتہ لکھیں۔

جب بھی اس تھیلے کے مالک آئے آپ کو بلا لیا جائے گا اور آپ کے سامنے ان کے حوالے کیا جائے گا۔


لیکن ہماری کیا ضرورت,میں نے اعتراض کیا،ضرورت ہے,اگر اس میں سے کچھ کم زیادہ ہوا تو۔

ایک جھرجھری ریڑھ کی ہڈی میں اٹھی..لو جی اگر لینے کے دینے پڑ گے تو،

یہ سوچ پریشان ہوگیا۔

ادھر عصر کی اذان حرم کے میناروں سے بلند ہوئی اور ہم وضو کے لیے چل دیے لیکن بے چینی سی بے چینی تھی.

وہ رات اسی فکر میں گزر گئی.

باربار خیال آرہا تھا کہ اگر اس تھیلے کے مالک نے کہہ دیا کہ فلاں فلاں چیز کم ہے تو میں کہاں سے پوری کروں گا۔

پاکستانیوں کے بارے میں وہ کیا سوچے گا۔

اگلے روز عصر کی نماز کے بعد بلاوہ آ ہی گیا.ہم دونوں سہمے سہمے قطار میں کھڑے تھے ہمارے مقابل ایک عمررسیدہ ترک بابا اپنی بڈھی کا ہاتھ تھامے کپکپا رہے تھے۔

جیسے بخار کی کیفیت سے گزر رہے ہوں.جلد ہی میں کاؤنٹر تک پہنچ گیا.وہی پاکستانی مترجم موجود تھا اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور تھیلا نکال کرترک بابے کے سامنے پھیلا دیا.بابا بے چینی سے اپنی اشیا گننے لگا۔

چند لمحوں بعد اس نے اطمینان سے تھیلا بند کیا اور رسید پر دستخط کرکے میری طرف پلٹا۔

اب ہم قطار سے باہر آچکے تھے۔

اس نے دونوں بازو کھول کرمجھے اپنے سینے سے لگا لیا.وہ واقعی بخار سے تپ رہا تھا۔

اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور چہرے پر پھیلنے لگے.اس کے ہاتھ کی گرفت میرے ہاتھ پر بڑھنے لگی......دفتر سے باہر آکر صحن حرم میں ایک جگہ بیٹھ گیا اور ہمیں بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا.

ہم بھی بیٹھ گئے توانگریزی میں بولا

"کیا تم پاکستانی ہو"

اثبات میں جواب سن کر ایک لمحے کے اچھلا اور میرا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوئے بولا"مجھے یقین تھا۔

اگر میرا سامان کسی پاکستانی کو ملا تو واپس مجھے مل جائے گا


کیوں,ایسا کیوں سوچا آپ نے یہاں شہر نبی صعلم میں کوئی بھی غلط نہیں کر سکتا

تم درست کہتے ہو لیکن انسان اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں پاکستانی کبھی ایسے ہو ہی نہیں سکتے

اس نے میرا ہاتھ چھوڑا تھیلا کھولا اور سارے ریال نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیے.

یہ میری طرف سے ہدیہ ہے

میں نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا یہ میرا حق نہیں۔

یہ آپ کی امانت تھی جو آپ کو مبارک.اس نے قہقہ لگایا اور بولا مجھے یقین تھا تم نہیں لوگے.

پھر وہ گویا ہوا...پاکستان کے ترکوں پر بہت احسنات ہیں۔

ہم تک اسلام کی دعوت آپ لوگوں کے ذریعے پہنچی۔

1923میں جب خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش ہوئی آپ نے جان ومال کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا۔

ہم دین کے حقیقی فہم سے ناآشناتھے۔میں خود ایک جاہل مسلمان تھا مجھے دین کا شعور لاہور سے عطا ہوا"

یہ کہہ کر وہ رو دیا

تھوڑی دیر بعد بولا

لاہور میں میرے دومرشد مدفون ہیں,علامہ محمد اقبال اور سید ابوالاعلی مودودی۔

یہ دونوں میرے محسن ہیں۔

میں نے انقلابی اسلام کا سبق ان سے پڑھا ہے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا اور اس کے سرکتے ہوئے سکارف پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا"میری بیگم کو یورپ میں رہتے ہوئے حیا کی یہ چادر مودودی نے عطا کی۔

میری یہ بیگم جرمن نومسلم ہے، اس کو اندھیرے سے اجالے کی طرف مودودی لایا.

اس نے استفامیہ نظروں سے مجھے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو ہے نا پاکستان ہمارا محسن

الفاظ میرے گلے میں پھنس گئے تھے۔

اسے میں کیسے بتاتا پاکستان میرا بھی محسن ہے,ایک لٹے پٹے کشمیری کا محسن جس کی ماں ننگے سر اورننگے پاؤں ہجرت کر کے آئی تھی اور پاکستان نے اس کے سر پر شفقت کی ردا رکھ دی.

پاکستان اس کم ظرف کا بھی محسن ہے جو گمراہی کے گڑھے میں گر رہا تھا

اسی سید نے ہاتھ تھام کر دین کی راہ پر لگا دیا,جس نے تمہیں باریاب کیا

جذبات کی شدت سے میری آنکھوں سے برسات برسنے لگی.....بوڑھا ترک لپکا اور مجھے گلے لگا کر بولا


حوصلہ رکھو یہ دنیا عارضی جگہ,ہم آخرت میں ایک ساتھ ہوں گے

ایرانی ترکی ہندوستانی عربی سب خاک میں مل جاٰئیں گے۔

اخلاق و کردار باقی رہیں گے۔

پاکستانی اور پاکستان ترکوں کے دل میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

وہ بولتا جا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا۔خدانخواستہ اس بوڑھے کی امیدیں پوری نہ ہوئیں تو کیا ہوگا۔

اگر یہ تھیلا اسے واپس نہ ملتا تو اس پر کیا گزرتی,اگر اسے رقم کم ملتی تو کیا سوچتا۔

ایک وقفے کے بعد وہ بولا جب کبھی لاہور جاؤ تو مرشد مودودی کی قبر پر کھڑے ہو کر کہنا تم نے ایک مردہ ترک کو انقلاب کی راہ دکھائی تم نے ایک جرمن عورت کو اسلام کی ابدی حقیقتوں سے آشنا کر دیا ,اللہ تیری قبر نور سے بھر دے۔

حرم نبوی کے میناروں سے مغرب کی اذان بلند ہو رہی اور ہم جدا ہو رہے تھے۔

لیکن میرا دل بابے کے سینے میں اور اس کا دل میرے سینے میں دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔

مجھے یوں لگا جیسے قارون کا خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہے۔

ہم دونوں عمر کے تفاوت کے باوجودجیسے ہم عمر اور صدیوں سے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے.اس حیات چندہ روزہ میں ایسی دولت کہاں نصیب ہوتی ہے۔

یہ تو اللہ جی کا خاص کرم ہوتا ہے.