General Asif Ghafoor's historical words are that war is very painful

GR SONS

 



جنرل آصف غفور کے تاریخی الفاظ ہیں کہ جنگ بہت دردناک ہوتی ہے

 اس میں کسی کی جیت کسی کی ہار نہیں ہوتی صرف انسانیت ہارتی ہے.

 

دوستو جنگ کسی بھی مسلے کا حل نہیں ہوتی بالخصوص آج کی جنگیں جو میدانوں میں دو بدو لڑنے جیسے دور سے نکل کر ملکوں اور براعظموں تک پہنچ گئی ہیں ایک بٹن دبایا اور پورا براعظم صفحہ ہستی سے صاف، یہاں تک کہ جن کا قصور نہیں وہ بھی خاک میں مل جاتے ہیں، سائبر اٹیک ہوئے معیشت تباہ، دفاعی نظام، توانائی کے نظام درہم برہم، میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا اور کسی بھی ملک میں گھسے بغیر وہاں اگ لگا دی اس لیے آج کی جنگ خواہش نہیں مجبوری میں کی جاسکتی ہے.

 

دوستو ویسے بھی یہ آجکے دور میں ممکن نہیں کہ امریکہ جیسے دہشتگرد ملک کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ملک بیٹھے بیٹھے بٹھائے کسی دوسرے ملک پہ بلاوجہ اچانک حملہ کردے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، خطہ غیر مستحکم ہو کر جنگ کا میدان بن سکتا ہے، عالمی منڈی شدید مندی کا شکار اور تیل و دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں، آتشی ہتھیاروں سے شدید خون خرابہ ہوسکتا ہے غرض کچھ بھی ہو سکتا ہے.

 

ذرا یہاں یہ بات غور سے سنیں اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش کریں، امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دجالیت کا جو آغاز کیا اس میں امریکہ نے پوری دنیا میں پراکیسیز/ بیسز/ دہشتگرد گروپس کا جال بچھایا اور اپنے مفاد کے لیے ایک ملک کی سرزمین دوسرے کے خلاف استعمال کرتا رہا یہی امریکہ نے عراق، شام، لیبیا، روس و پاکستان کے خلاف افغانستان، چین و پاکستان کے خلاف بھارتی سرزمین/ دہشتگردانہ گروپس کے ذریعے کیا.

 

امریکہ کے افغانستان میں بری طرح ذلیل ہو کر نکل جانے، بھارت کی بیوقوفیوں، گردن چین کے ہاتھ آنے اور افغانستان سے بدک جانے، پاکستان چین اور روس کی قربت، افغانستان کا میدان چھوٹنے پر ایک ہی جگہ سے روس، چین اور پاکستان کو کنٹرول کرنے کا خواب بھی چکنا چور ہونے.

 

 پاکستان سے اڈے اور تعاون پر Absolutely Not کا جواب ملنے، سعودی ایران جنگ کی پوری کوشش کروانے پر جنگ نہ ہونے کے بعد اب امریکہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ کسی طرح اس خطے کو میدانِ جنگ رکھت رکھے تو امریکہ و دیگر مغربی طاقتوں نے یوکرائن کو اسلحے سے لیس کرکے اسے روس کے خلاف جنگ میں بھرپور مدد، نیٹو فورسز کی آمد کا یقین دلایا کر اسے اتنی شے دی کہ وہ خود کو ہی سپر پاور سمجھنے لگا.

 

پھر وہی ہوا امریکہ و مغرب نے یوکرائن سے غداری کی جس کا پہلے ہی روس سے تنازعہ تھا اسے میدان جنگ میں دھکا دیکر خود کنارہ کر لیا اور یوکرائن امریکہ و مغرب پہ یقین کرکے خود پھنس گیا جس کے سامنے ایک عالمی طاقت روس تھا، بہترین انٹلیجنس جو امریکہ، نیٹو اور یوکرائن کی چالوں سے باخبر تھا کہ یوکرائن مغرب کے ہاتھوں میں کھیل کر پاگل پن کر رہا اور اسی پاگل پن میں روس نے امریکہ و دیگر مغربی طاقتوں اور نیٹو کی تمام دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوکرائن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جو شاید خود بھی مغرب کی شے پہ کچھ کرنے کو تیار بیٹھا تھا.

 

روس کے حملے نے جہاں مغربی طاقتوں اور انکی دھمکیوں کو پیروں تلے روند کر انکی تمام چالوں اور سازشوں کو ملیا میٹ کر دیا وہیں ایشیاء میں بیٹھے کچھ بیوقوفوں کو بھی یہی پیغام دیا گیا کہ وہ امریکہ و اتحادیوں کی ہلہ شاہی میں نہ آئے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی امریکی کوششوں کا حصہ نہ بننے. ورنہ امریکہ و اتحادی وہی کریںنگے جو یوکرائن معاملے میں کیا، یوکرائن کو آگے کردیا جب یوکرائن پہ مصیبت آن پہنچی تو کوئی مدد کو نہ آیا.....